(ایجنسیز)
مصر کے سابق فوجی سربراہ اور صدارتی امیدوار فیلڈ مارشل عبدالفتاح السیسی نے کہا ہے کہ وہ منتخب ہونے کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم کا اس وقت تک خیر مقدم نہیں کریں گے جب تک فلسطینیوں کو امن مذاکرات میں رعائتیں نہیں ملیں گی۔
جولائی 2013 میں ملک کے پہلے منتخب صدر محمد مرسی کو برطرف کرنے والے عبدالفتاح السیسی 26 اور 27 مئی کو متوقع صدارتی انتخاب کیلیے اہم ترین امیدوار کے طور پر موجود ہیں۔ انہیں صدارتی انتخاب کے حوالے سے صرف ایک حریف حمدین صباحی کا سامنا ہے، حمدین صباحی بائِں بازو سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے 2012 کے پہلے صدارتی انتخاب میں تیسری پوزیشن حاصل کی تھی۔
السیسی نے اپنے ٹی وی انٹرویو میں اسرائیل کا ذکر کرتے ہوئے کہا '' اسرائیل ہمیں صرف اسی صورت خوش کر سکتا ہے کہ فلسطینیوں کو کچھ دے۔'' واضح رہے ان سے پوچھا گیا تھا منتخب صدر کے طور پر اپنے پڑوسی ملک اسرائیل کے وزیر اعظم کو خوش آمدید کہیں گے۔
مصر ہی وہ پہلا مسلمان ملک ہے جس نے 1979 میں اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کیے تھے، لیکن اس معاہدے کے بعد بھی اسرائیل کا فلسطینیوں کے ساتھ رویہ ویسا ہی معاندانہ رہا ہے۔ السیسی نے کہا
''اسرائیل کو پہلے ایک ایسی فلسطینی ریاست جس کا دارالحکومت مغربی یروشلم ہو کا قیام تسلیم کرنا پڑے گا۔''
اسرائیِل اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان امریکی حمایت سے دوبارہ شروع ہونے والے امن مذاکرات بھی 29 مارچ کے بعد پھرسے معطل ہو چکے ہیں۔ فریقین امن مذاکرات کی معطلی کا الزام ایک دوسرے پر عاید کرتے ہیں۔ دوسری جانب مصر جزیرہ نما سینا میں دہشت گردوں کے خلاف نبرد آزما ہے جہاں دہشت گرد اب تک سینکڑوں افراد کو ہلاک کر چکے ہیں۔
اسرائیل بھی مصر کے اس کریک ڈاون کی حمایت کرتا ہے۔ اسرائیل کے خیال میں جزیرہ نما سینا کا علاقہ مصر سے حماس کے زیر انتظام غزہ کی طرف سمگلگ کے راستے کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ حماس پر مصر نے بھی پابندی لگا دی ہے کہ مبینہ طور پر حماس 2011 کے دوران جیل توڑنے میں ملوث رہی ہے۔
السیسی نے مزید کہا '' فوجی کارروائی کے دوران زیادہ تر ایسی سرنگیں تباہ کر دی گئی ہیں جو سمگلنگ کا ذریعہ تھیں۔'' تاہم انہوں نے اس بارے میں کچھ کہنے سے انکار کر دیا کہ حماس مصر کی مخالف ہے۔ صدارتی امیدوار نے کہا '' میں اہل مصر سے کہنا چاہتا ہوں کہ '' حماس کے بارے میں خیالات رکھنے کے باوجود ہمار فلسطین سے متعلق موقف متاثر نہیں ہونا چاہیے ۔''